Search This Blog
NFAK Line* Lahore Poetry* Ishq Poetry* Flirt Poetry* Romantic Poetry* Heart Broken Poetry* Thoughts* Eid Poetry* Poetry in Urdu* Poetry in Hindi* Poetry in Love* Poetry in Sad* Poetry in Punjabi* Jaun Elia Poetry* Ilama Iqbal Poetry* December Poetry* 2lines Urdu Poetry*
Posts
Featured
کل میں ہوشیار تھا تو دنیا کو تبدیل کرنا چاھتا تھا، آج میں عقل مند ہوں تو میں اپنے آپکو تبدیل کررہا ہوں..
- Get link
- X
- Other Apps
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
- Get link
- X
- Other Apps
جب قرآن پہ پابندی لگی : 1973 روس میں کمیونزم کا طوطا بولتا تھا بلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجاے گا ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے چلے گئے وہ کہتے ہے کہ جمعے کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو گودام بنا دیا گیا ہے ایک دو مساجد کو سیاحوں کا قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مسجد اس شہر میں بچے ہے جو کھبی بند اور کھبی کھلے ہوتے ہیں میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دے میں وہی چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے ۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی ، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے ساتھ مسجد کی چابی تھی میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ، اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوی نقصان پہنچا تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجاے ۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوشیش کرنے لگا کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے آزان دی ۔۔۔۔۔ آزان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ۔۔۔۔ لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا،۔۔۔۔ خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکہ باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کویی نیا کام متعارف کرواکر مسجد سے نکلا، ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آے ۔ اسکے لہجے میں حلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے میں نے کھانا کھایا چاے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے ۔ ؟ بچے نے کہا جی بلکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ، میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سناو مجھے ۔۔۔ بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا ۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نھی آتا لیکن اس نے کہا کیوں کہ اسکو قرآن پڑھنا آتا ہے ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی اس آیت پہ انگلی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ رکھی تو وہ فر فر بولنے لگا بنا قرآن کو دیکھے ہی ۔۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا میں نے اسکے والدین سے کہا " حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے مسکرا کر کہا " دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جاے تو اس تمام حاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ھے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں " " تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں " میں نے مزید حیران ہوکر کہا " ہمارے پاس قرآن کے کئ حافظ ہے کوئی درزی ہے کوی دکاندار کوئ سبزی فروش کوئی کسان ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہے محنت مزدوری کے بہانے ۔۔۔۔ وہ انکو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہے کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں اسلیئے ہماری نیی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہمارے گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہے ۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکہ لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر بولنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا ۔ وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک نہیں کئ ہزار معجزے اس دن دیکھے ، جس معاشرے میں قرآن پہ پابندی لگا دی گئ تھی رکھنے پہ ، اس معاشرے کے ہر ہر بچے بوڑھے مرد عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا میں جب باہر نکلا تو کئ سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا دی ، میں نے کہا " لوگوں ۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے ۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں احباب سے پرزور اپیل ہے کہ اس تحریر کو دل کھول کہ شیئر کریں آپکا ایک سینکڈ لگے گا اور لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا اور اس کار خیر کا سبب آپ بنو گے... جی ہاں آپ...
- Get link
- X
- Other Apps
یا اللّه جب میں مایوس هو جاؤں _ تو میری مدد فرما ۔_ کیونکہ میری زندگی کے بارے میں تیرے فیصلے _ میرے خواھشوں سے بہتر ہیں _ بیشک ..
- Get link
- X
- Other Apps
ملن کی آخری شام کے ڈھلنے سے پہلے اور ایک دوسرے کی سانسوں اور دھڑکنوں کی آواز سننے سے پہلے کہ جس کے بعد تم میری دنیا سے دور چلے جاؤ گے تمھیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ جب بھی سورج طلوع ہوگا اور سوات کی وادیوں میں روشنی بارش کہ قطروں کی طرح گرے گی اور قراقرم کے جامنی پہاڑوں پر برف پگھلے گی اور پھر جب اس برف میں دبی داستان نگر کے درمیان بہہ جائے گی تب تمھیں مجھ سے اک وعدہ نبھانا ہوگا کہ اس رات کہ بعد اپنی زندگی میں آنے والی ہر صبح کی ٹھنڈی ہوا اور ہر بارش کہ بعد گیلی مٹی اورجامنی پہاڑوں پہ دودھ کی سی جمی برف دیکھ کہ تم مجھے یاد کرنا کہ یہ میرا تم پر اور تمھارا مجھ پر قرض ہے
- Get link
- X
- Other Apps
زندگی میں سیکھا ہے ایک ہی سبق ہم نے ہر ستم کے بدلے میں ہنس کے بس دعا دینا...
- Get link
- X
- Other Apps
فقط ایک عورت کو دیکھ کر اپنا ایمان کھو دینے والی قوم کے نوجوان اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے ایمانی طاقت کہاں سے لاہیں گے .....
- Get link
- X
- Other Apps
کسی کا ظرف آزمانا ہوتو اسکواپنےسےزیادہ عزت دو, اگراعلی ظرف ہوگاتو تمہیں عزت دےگا, اگرکم ظرف ہوگاتوخودکواعلی سمجھےگا. ....
- Get link
- X
- Other Apps
ﻭﮦ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ .... ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ! ( ماں سے متعلق ایک رلا دینے والا واقعہ ) ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﮨﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﻓﺲ ﮐﯿﻨﭩﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﮧ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ’’ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺎﮨﺖ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ’’ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺑﺪ ﺗﻤﯿﺰ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺿﺪ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺨﺮﮮ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ، ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﻼ۔ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﯿﺎﺭ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ، ﻣﮉﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﺗﮏ ﯾﮩﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ، ﺑﺴﺘﮧ ﻏﺮﺽ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺻﺒﺢ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺴﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﻧﻔﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﺗﻮﻟﺐ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮫ ﮐﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﻤﺒﻞ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮨﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﮍ ﺭﮨﯽ۔۔۔ ﺍﯾﮏ 11 ﺳﮯ 13 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﺳﮯﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﮭﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻮﮌﺍ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ 16 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ 1500 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺳﯽ ﺭﺍﺕ 2 ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺫﺭﺍ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﭨﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﭼﺸﻤﮧ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﮔﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ؟؟؟ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔۔۔ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺛﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺩﻭ ﺳﻮﭦ ﺳﻼﺋﯽ ﮐﺮﺩﻭ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺳﻮﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﻝ ﺭﮨﺎ۔۔۔ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ۔ ﺍُﺩﮬﺮ ﺍﯾﻒ۔ﺍﮮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻓﻮﺭﯼ ﺷﮑﺮ ﭘﺎﺭﮮ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﮨﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺧﻼﻑ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺁﺝ ﻧﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ : ’’ ﻣﺎﮞ، ﻣﺎﮞ ، ﻣﺎﮞ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﮞ ﮞ ﮞ ﮞ ‘‘ ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ، ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﺍﻭ ﺭ ﺗﺮﻟﮯ ﮐﯿﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺎﮞ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﺎﺭِ ﻏﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﻭ ﺳﮑﻮﮞ ﺩﯾﺎ ’’ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ‘‘ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﺍﮨﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﺧﺴﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﮯ۔ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺒﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔ ﺁﻣﯿﻦ
- Get link
- X
- Other Apps
منفی خیالات سے چھٹکارا پائیے؛ قیمتی راز جو زندگی بدل سکتے ہیں ایک سیانے کا قول ہے: ’’جب زندگی رونے پیٹنے کی سو وجوہ آپ کو دکھائے، تو اسے بتائیے کہ ہنسنے کی ایک ہزار وجوہ موجود ہیں۔‘‘ یہ خوبصورت قول ہمارے سامنے زندگی کا مثبت رخ پیش کرتا اور اُمید دلاتا ہے۔ زندگی ٹھوکریں کھا کر گرنے اور پھر سنبھلنے کا نام ہے۔ جو لوگ اپنی غلطیوں سے سبق لیتے ہیں، کامیابی عموماً انہی کے قدم چومتی ہے۔ مزید براں ایک تجربہ کار اور دانا استاد کی رہنمائی بھی نو آموز کے لیے فائدے مند ثابت ہوتی ہے۔ اکیاسی سالہ پرمود بترا ایک ایسے ہی استاد ہیں۔ پرمود بترا 1936ء میں سرگودھا میں پیدا ہوئے۔جب ہندوستان تقسیم ہوا، تو مع والدین بھارت چلے گئے۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم بی اے اور مینیسوٹا یونیورسٹی (امریکا) سے ڈی لٹ کیا۔ وہ پھر 1996ء تک ایک نامور کمپنی میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے۔ریٹائر ہونے کے بعد وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے بلکہ فیصلہ کیا کہ زندگی کے اپنے تلخ و شیریں تجربات سے فائدہ اٹھا کر دوسروں کی رہنمائی کریں گے۔ اس ضمن میں انہوں نے قلم کا سہارا لیا اور کردار سازی و تعمیر شخصیت سے متعلق کتابیں لکھ کرمایوس، ناکام اور نامراد لوگوں کو کامیابی و ترقی کا راستہ دکھانے لگے۔ بترا صاحب بھارت کے علاوہ بیرون ممالک بھی لیکچر دیتے اور مردو زن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ، عزم اور ہمت ابھارتے ہیں۔ ان کی کتابوں سے امید افزا اور زندگی بدل دینے والے مثبت واقعات و اقوال درج ذیل ہیں۔ سوچ محدود نہ کیجیے ایک مرغی کافی دیر تک شیشے کی دیوار کی دوسری سمت پڑے دانوں کو تاسف بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ کبھی کبھی بے مقصد زمین پر ٹھونگ مار دیتی۔ مگر احمق مرغی اپنی محدود سوچ کے دائرے میں مقید رہی۔ اگر وہ محض ایک فٹ دیوار کے ساتھ ساتھ چلتی، تو وہ ختم ہوجاتی۔ تب مرغی دانوں تک پہنچ سکتی تھی۔اس واقعے کا سبق یہ ہے کہ انسان کبھی اپنی سوچ محدود نہ کرے۔ یوں اس کے خیالات بند گلی میں قید ہوجاتے ہیں۔ فکر کو وسعت دے کر ہی انسان اپنے مقاصد پاسکتا ہے۔ گاہک کی پسند ایک کمپنی جانوروں کی خوراک بناتی تھی۔ ایک دن نئی مصنوعات کے سلسلے میں میٹنگ ہوئی جس میں کمپنی کے تمام اعلیٰ افسر شریک تھے۔ ہر افسر مشورے و تجاویز دے رہا تھا۔ اچانک مالک کمپنی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے کمرے میں کھڑے چپڑاسی سے پوچھا ’’تم بتاؤ جانور کیسی خوراک پسند کرتے ہیں؟‘‘ چپڑاسی مسکرا کر بولا ’’جناب! میں کتا بلی تو نہیں کی اپنی پسند بتا سکوں۔ ایسا کیجیے کہ چند جانور حاصل کریں اور پھر ان کے سامنے اپنی مصنوعات رکھیے۔ معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیسی خوراک پسند کرتے ہیں۔‘‘ مالک کمپنی کو یہ مشورہ بہت پسند آیا اور وہ کارگر بھی ثابت ہوا۔یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ گاہکوں کی ضروریات اور پسند مدنظر رکھ کر ہی ہر کمپنی اپنی مصنوعات تیار کرے۔ تبھی اس کی ایک نئی مصنوعہ کامیاب ہوسکتی ہے۔ کمپنی کے مالکان نے اپنی پسند ناپسند سامنے رکھ کر کوئی مصنوعہ تیار کی، تو اس کا کامیاب ہونا محال ہے۔ اب کیا کروں؟ ایک بوڑھا چینی اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں جارہا تھا۔ اس نے کاندھے پر ایک لکڑی جما رکھی تھی جس سے یخنی سے بھرا ایک برتن لٹک رہا تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ چلتے چلتے کسان کو ٹھوکر لگی، تو برتن نیچے گرا اور ٹوٹ گیا۔ کسان نے لحظہ بھر رک کر اسے دیکھا پھر اپنے قدم اٹھاتا آگے چل پڑا۔اتفاق سے وہاں کھڑا ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا کسان کے پاس گیا اور پوچھا ’’بزرگو! آپ کا برتن ٹوٹ گیا اور ساری یخنی ضائع ہوگئی۔ آپ کو افسوس نہیں ہوا؟‘‘ بوڑھے کسان نے سکون سے کہا ’’ہاں، بیٹا، میں جانتا ہوں۔ مگر اب میں کیا کروں؟‘‘ وہ آدمی یہ سن اپنا سر ہلا کر رہ گیا۔یہ واقعہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ جو نقصان ہوچکا، اس پر رونے کڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ غم و افسوس کرنے سے الٹا صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھیے اور کوشش کیجیے کہ وہ مستقبل میں ظہور پذیر نہ ہوں۔ غلطیاں ہر انسان سے سرزد ہوتی ہیں، مگر جو لوگ ان پر ماتم کرنے لگیں، وہ اپنا وقت اور توانائی ہی ضائع کرتے ہیں۔ دماغ سلامت رکھیے ایک دفعہ میں جاپان دورے پر گیا۔ وہاں میری ملاقات دونوں ٹانگوں سے معذور ایک امریکی سے ہوئی۔ معذوری کے باوجود وہ وہیل چیئر پر بیٹھا دنیا کی سیر کرنے نکلا ہوا تھا۔ اس کی بہادری اور عزم نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے اس معذور سے پوچھا ’’وہ کون سی بات ہے جس نے آپ کو بہادر اور دلیر بنادیا؟‘‘ معذور مسکرایا اور بولا ’’دوست! میں ٹانگوں سے معذور ہوں، مگر میرا دماغ تو سلامت ہے۔‘‘ سچ یہ ہے کہ جو انسان اپنے دماغ سے کام لے، وہ معذور ہوتیم ہوئے بھی کارہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے۔ صرف مشین ہی ناکارہ نہیں ہوتی، دماغ کو بھی خراب ہونے سے بچانا چاہیے۔ تیرنے کی بنیادی شرط ایک ملاح دریا میں کشتی چلاتا تھا۔ وہ ایک کنارے سے مسافروں کو دوسرے کنارے تک لے جاتا اور اپنی فیس کھری کرتا۔ کسی نے اس سے پوچھا: ’’تم دن میں کتنے چکر لگالیتے ہو؟‘‘ وہ بولا ’’جتنے زیادہ سے زیادہ لگ جائیں۔ کیونکہ میں جتنے چکر لگاؤں گا، اتنی ہی زیادہ رقم مجھے حاصل ہوگی۔ اگر میں بیٹھا رہا، تو کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘یہ معمولی ملاح ہمیں زندگی کا ایک بڑا سبق دیتا ہے، یہ کہ اپنی خوشحالی و ترقی کے لیے محنت کرنا بنیادی شرط ہے۔ انسان کو کم از کم اتنی تگ و دو ضرور کرنی چاہیے کہ اپنا وزن خود سنبھال لے اور اس زمین پر بوجھ نہ بنے۔ ہنرمندی: ایک قیمتی شے ایک امریکی اپنی کار میںدنیا کی سیر کرنے نکلا۔ وہ پھرتا پھراتا افغانستان آپہنچا۔ ایک جگہ اس کی گاڑی کا انجن بند ہوگیا۔ بہت تگ و دو کی مگر کار اسٹارٹ نہ ہوسکی۔ اس علاقے میں آبادی کم تھی۔ امریکی پریشان ہوگیا کہ اب وہ کار مکینک کہاں سے ڈھونڈے۔ امریکی سیاح کی خوش قسمتی کہ علاقے میں ایک مکینک مقیم تھا۔ وہ اس تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ مستری نے انجن دیکھا بھالا، پھر ہتھوڑا اٹھایا اور سلنڈر پر پانچ ضربیں لگائیں۔ پھر چابی گھمائی، تو کار چل پڑی۔ امریکی بہت خوش ہوا۔اس نے افغان مکینک کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ کتنے پیسے ہوئے؟ افغان بولا ’’آپ ایک سو ڈالر دے دیں۔‘‘ امریکی نے حیران ہوکر کہا ’’بھائی‘ کام تو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ تم نے جھٹ پٹ کر ڈالا۔‘‘ مکینک بولا ’’محترم! ضربیں لگانے کے تو صرف 5 ڈالر ہیں۔ خرابی ڈھونڈنے میں جو مہارت خرچ ہوئی، 95 ڈالر اس کے ہیں۔‘‘ امریکی خاموش ہوگیا اور چپ چاپ سو ڈالر دے دیئے۔ یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ ہنرمندی ایک قیمتی شے ہے۔ لہٰذا ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہنرمندوں کی موجودگی ہی ہمارے بہت سے مسائل حل کرنے میں مددگار بنتی ہے۔ عقل کو آکسیجن دیجیے ایک بار بادشاہ نبی حضرت سلیمانؑ نے ایک کمرے میں ایسے اصلی اور نقلی پھول رکھ دیئے جن میں بظاہر کوئی فرق نہ تھا۔ پھر اپنے وزیروں مشیروں کو بلایا اور پوچھا کہ ہاتھ لگائے بغیر بتاؤ، ان میں اصلی پھول کون سے ہیں اور نقلی کون سے؟ وزیر مشیر سر کھجا کر تُکے لڑاتے رہے مگر کوئی بھی سارے اصلی پھولوں کو ایک جگہ جمع نہیں کرسکا۔ انہیں ناکام دیکھ کرحضرت سلیمانؑ نے کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ سامنے ہی وسیع و عریض باغ تھا۔ تھوڑی دیر بعد چند شہد کی مکھیاں کمرے میں داخل ہوئیں اور اصلی پھولوں پر منڈلانے لگیں۔ یوں حضرت سلیمانؑ نے اپنی دانش مندی سے مسئلہ حل کرلیا۔ یہ مثال یہی سبق دیتی ہے کہ ہم کو اپنا دماغ ہر وقت کھلا رکھنا چاہیے تاکہ عقل کو آکسیجن ملتی رہے۔ ایک عاقل و فہمیدہ انسان کٹھن ترین مسائل کا بھی بخوبی حل نکال لیتا ہے۔ خوبیوں پہ نظر اٹلی کے عالمی شہرت یافتہ مجسمہ ساز، مائیکل انجیلو کا مجسمہ ’’ڈیوڈ‘‘دنیائے فنون لطیفہ میں کلاسک مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ انجیلو نے سنگ مر مر کے جس تختے سے یہ مجسمہ تخلیق کیا، اسے دوسرے مجسمہ ساز ناقص قرار دے کر مسترد کرچکے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس ٹکرے سے کچھ نہیں بنایا جاسکتا۔تاہم مائیکل انجیلو نے سنگ مر مر کا وہ تختہ دیکھا، تو اسے اس میں پوشیدہ ڈیوڈ کا مجسمہ نظر آگیا۔ چناں چہ اس نے تختے کے نقائص نظر انداز کیے اور چھینی و ہتھوڑی اٹھا کر مجسمہ تخلیق کرنے لگا۔ آج یہ مجسمہ فنون لطیفہ کی دنیا میں ’’ماسٹر پیس‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ عام لوگ زندہ یا مردہ اشیا کے عیوب و خامیوں پر تو دھیان دیتے ہیں لیکن ان میں چھپی خوبیاں نظرانداز کردی جاتی ہیں۔ لیکن دانا بینا لوگ خوبیاں ہی دیکھتے اور ناسازگار حالات کے باوجود ان سے فائدہ اٹھا کر کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔ رہنما اقوال ٭… ہلکی سیاہی سے لکھی تحریر بھی بہترین یادداشت سے بہتر ہوتی ہے۔ ٭… ایک انسان کے بے عیب ہونے کی بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرتا۔ ٭… چھوٹی چھوٹی خامیوں پر بھی نظر رکھیے کیونکہ ایک معمولی سا سوراخ بھی جہاز ڈبو سکتا ہے۔ ٭… دس غریب ایک کمبل میں سو جائیں گے مگر ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سماسکتے۔ ٭… ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ جو بیک وقت کئی کام کرنا چاہتے ہیں وہ کوئی بھی کام مکمل نہیں کرپاتے۔ ٭… جو انسان ایک اسکول کھولے، وہ ایک قید خانہ بند کردیتا ہے۔ ٭… بڑی کامیابی اس انسان کو ملتی ہے جو چھوٹے آغاز پر مطمئن رہنا سیکھ لے۔ ٭… جن لوگوں کی آنکھیں کھلی اور دماغ بند نہ ہوں، ان کے لیے غلطیاں کامیابی کی کنجی ہیں۔ ایڈیسن نے کئی غلطیاں کیں پھر ان سے سبق سیکھ کر ہی وہ بلب بنا پایا۔ ٭… وہ آدمی امیر ترین ہے جس کی خوشیاں سستی ہوں۔ ٭… تعریف انسان کی عمدہ خوراک ہے۔ ٭… رات کو اچھا آرام کرنے کے معنی ہیں کہ صبح کو اچھا آغاز۔ ٭… صرف مردے اور بے وقوف ہی اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے۔ ٭… خوشی کا راز تجسّس میں پوشیدہ ہے۔ ٭… محنت میں مواقع چھپے ہونے کی وجہ سے کئی لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ ٭… شکست کتنی ہی تلخ ہو، عارضی ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی کرکے آئندہ اسے جیت میں بدل لیجیے۔ ٭… دوستوں اور کتابوں سے رابطے میں رہیے۔ ٭… دریا کے نقش قدم پر چلیے، وہ آپ کو سمندر تک پہنچا دے گا۔ ٭… مسکراہٹ واحد ایسی عالمی زبان ہے جسے دنیا کا ہر شخص سمجھتا ہے۔ ٭… کامیاب و کامران انسان وہ ہے جو دوسروں کی نہیں اپنی خامیوں و غلطیوں پر نظر رکھے۔ ٭…ایک ملی گرام احتیاط اذیت و تکلیف کے منوں بوجھ سے محفوظ رکھتی ہے۔ ٭…چھوٹے دشمن کو بڑا دشمن نہ بنائیے۔ ٭…بچے والدین کا سہارا بنتے ہیں یا نہیں، اس امر کا دارومدار 70 فیصد ماں باپ پر ہے اور 30 فیصد قسمت پر۔ ٭… مالک اپنے ملازمین سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے کیونکہ عقل و دانش صرف مالکوں کی میراث نہیں۔ ٭…لوگ آپ کے خلاف نہیں، وہ بس اپنے مفاد میں سوچتے ہیں۔ ٭…جاہل کہتا ہے کہ اس نے اپنا ماضی اور حال تباہ کردیا۔ عقل مندکہتا ہے کہ ابھی مستقبل سلامت ہے۔ ٭…ناکامیوں کو ریت پر جبکہ کامیابیوں کو سنگ مر مر پر تحریر کیجیے۔ ٭…عزت و احترام کے بغیر کامیابی پانا ایسے ہی ہے جسے نمک کے بغیر کھانا۔ یہ کھانا بھوک تو ختم کردیتا ہے مگر بذذائقہ ہوتا ہے۔ ٭… وہ انسان خوش قسمت ہے جسے من پسند کام کرنے کو مل گیا… اب اسے کسی اور خوشی کی ضرورت نہیں۔
- Get link
- X
- Other Apps
✴️ یقین سے متعلق ایک انتہائی پرتاثیر تحریر ✴️ {...میں نے اپنے اللہ سے کہہ دیا ہے...!} گلی میں کھیلنے والے بچوں کو وہ بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا… اس نے دیکھا کہ ایک بچے نے دوسرے بچے کو مارا تو مار کھانے والا روتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگالیکن تھوڑی ہی دیر میں پھر آموجود ہوا… اب اس کے چہرے پر حد درجہ اطمینان تھا… جس بچے سے اس کی لڑائی ہوئی تھی، اس کو اس نے کہا… . " میں نے اپنی ماما سے کہہ دیا ہے " . اور یہ کہہ کر وہ دوبارہ کھیل میں شامل ہو گیا… وہ سوچنے لگا کہ اس بچے کو حد درجہ اطمینان کس چیز نے دیا ہے… اس کی ‘ماما’ نہ تو موقع پرآئی ہے، نہ اس نے دوسرے بچے کو کچھ کہا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی پیغام بھیجا ہے مگر اس کا بیٹا پھر بھی مطمئن ہے… غور و فکر سے اس پر واضح ہوا کہ اس کا اطمینان در اصل اس یقین کا نتیجہ تھا جو اس کو اپنی ماں پر تھا…اسے یقین تھا کہ اس کی ماں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس کی بے عزتی کا بدلہ لے سکے اور یہ کہ وہ لازماً ایسا کرے گی… مگر یہ کہ وہ کب ایسا کرے گی، کس طریقے سے کرے گی، کتنا کرے گی، یہ سب کچھ اس نے اپنی ماں پر چھوڑ دیا تھا… اور یہ بھی اس کا یقین تھا کہ وہ یقیناً بہتر ہی کرے گی…! تفویض اور اپنے معاملات کو ایک مشفق اور طاقتور ہستی کے سپرد کرنے کا یہ عمل اسے بہت بھایا اور ساتھ ہی وہ بہت شرمندہ بھی ہوا جب اسے یہ احساس ہوا کہ اس کا تو اپنے مالک سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا کہ اس بچے کا اپنی ماں سے ہے… اس نے یاد کیا کہ اس کی زندگی میں کتنے مواقع ایسے ہیں کہ جب اس نے سجدے میں سر رکھ کر یہ کہا ہو کہ مالک میرے بس میں جو تھا وہ تو میں نے کر لیا اب معاملہ تیرے سپرد ہے… اور یہ کہہ کر وہ اس بچے کی طرح مطمئن ہو گیا ہو… اور جب تہی دامنی کی احساس نے اسے بالکل ہی سرنگوں کر دیا تو اس نے حساب لگایا کہ اصل میں گڑ بڑ دو جگہ پر ہے… اول تو اسے مالک کی طاقت، قدرت اور عظمت کا کامل استحضار ہی نہیں اور اگر ہے تو پھر اس کی حکمت پہ شاید کامل ایمان نہیں… وگرنہ یہ ممکن نہ تھا کہ تفویض کے بعد اسے اطمینان حاصل نہ ہو جاتا اور پھر اس نے ”افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد“ کہہ کر یہ عہد کیا کہ آئندہ وہ تفویض کا یہ عمل بچوں سے سیکھے گا اور ہر اہم موقع پر یہ کہہ کر اپنے ایمان کی تربیت کرے گا کہ میں نے اپنے اللہ سے کہہ دیا ہے…!!
- Get link
- X
- Other Apps