Skip to main content

Featured

‏ ایک دن میرا کوئی عزیز مجھے آخری الوداع کہنے اسی طرح بھاگتا ہوا آۓ گا ــ‎

 😊

مجھے گھنے پیڑوں سے عجیب عشق ہے۔ نانی کے گاؤں والے گھر کے آنگن میں آم کا بہت گھنا پیڑ تھا۔ بچپن میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے نانی کے گھر جاتے تو ہم سب بچے اس پیڑ کے نیچے دوڑتے پھرتے اودھم مچاتے پھرتے۔ پیڑ کی ایک مضبوط شاخ پہ جھولا بندھا تھا جس پہ جھولتے ہمارا بچپن کٹا۔ برسات میں جب بدلی گھر کے آتی اور تیز ہوا میں آم کا پیڑ لہلہاتا تو اس کی شاخوں میں سے عجیب مدحوشکن سائیں سائیں کی آوازیں نکلتیں جو سارے گھر میں پھیل جاتیں۔ بارش برستی تو بہت دیر تک ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آم کے پیڑ سے ننھی ننھی بوندیں برستی رہتیں۔ وہ دن بھی پر لگائے آئے تھے۔ جس روز ہم نانی کی میت کو کاندھا دیے منوں مٹی تلے دفنانے گئے تھے اس دن بھی نانی کا نہلایا دھلایا وجود اسی پیڑ کے نیچے بے بس اور ساکن پڑا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن وہ آنگن تو جیسے ہم پہ حرام ہوگیا ہو۔ اگر کچھ بچا ہے تو مہذ یادیں اور یادوں سے بھی بھلا کوئی کبھی پیچھا چھڑا پایا ہے۔ خیر تو ذکر ہو رہا تھا گھنے پیڑوں کا۔ ان دنوں میں جہاں رہتا ہوں وہاں میرے کمرے کے بالکل مقابل پیپل کا ایک بہت بڑا درخت ہے۔ اس کے سرخ تنے اور دور تک پھیلی جڑوں کو دیکھ کر مجھے ابا کے آبائی گاؤں کا وہ سادھو یاد آجاتا ہے جو ہر صبح گاؤں کے ایک گھنے پیر کی جڑوں میں براجمان راماین کا پاٹھ کیا کرتا تھا۔ بچپن کے یہ سب کردار تو اب کسی دوسری زندگی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ یہاں اس انجاں جگہ اس سب سے دور میں کیوں اور کیا سوچ کر آیا ہوں مجھے معلوم نہیں۔ بس کچھ خواب ہیں اور کچھ خواہشیں جن کی تقمیل منظور ہے۔ یہاں گزرا ہر دن کسی بن بنباس سے کم نہیں۔ یہ شہر میرا اپنا نہیں اور نہ ہی یہاں کے باسی۔ ہر روز رات سونے کے لیے بستر پر لیٹتا ہوں تو عجیب وحشت ہونے لگتی ہے۔ بہت سے خدشات اور خوف میرے گرد ہیلوے بناتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ کیوں زندگی اکثر ہمیں ایسے رستوں پہ لے چلتی ہے جہاں کھو جانے کا خوف ہر وقت ہمیں ستاتا رہتا ہے؟ Unknown🔥🌸

Comments