Skip to main content

Posts

Featured

‏ ایک دن میرا کوئی عزیز مجھے آخری الوداع کہنے اسی طرح بھاگتا ہوا آۓ گا ــ‎

 😊

ﻭﮦ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ .... ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ! ( ماں سے متعلق ایک رلا دینے والا واقعہ ) ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﮨﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﻓﺲ ﮐﯿﻨﭩﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﮧ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ’’ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺎﮨﺖ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ’’ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺑﺪ ﺗﻤﯿﺰ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺿﺪ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺨﺮﮮ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ، ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﻼ۔ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﯿﺎﺭ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ، ﻣﮉﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﺗﮏ ﯾﮩﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ، ﺑﺴﺘﮧ ﻏﺮﺽ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺻﺒﺢ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺴﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﻧﻔﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﺗﻮﻟﺐ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮫ ﮐﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﻤﺒﻞ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮨﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﮍ ﺭﮨﯽ۔۔۔ ﺍﯾﮏ 11 ﺳﮯ 13 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﺳﮯﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﮭﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻮﮌﺍ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ 16 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ 1500 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺳﯽ ﺭﺍﺕ 2 ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺫﺭﺍ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﭨﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﭼﺸﻤﮧ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﮔﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ؟؟؟ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔۔۔ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺛﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺩﻭ ﺳﻮﭦ ﺳﻼﺋﯽ ﮐﺮﺩﻭ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺳﻮﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﻝ ﺭﮨﺎ۔۔۔ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ۔ ﺍُﺩﮬﺮ ﺍﯾﻒ۔ﺍﮮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻓﻮﺭﯼ ﺷﮑﺮ ﭘﺎﺭﮮ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﮨﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺧﻼﻑ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺁﺝ ﻧﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ : ’’ ﻣﺎﮞ، ﻣﺎﮞ ، ﻣﺎﮞ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﮞ ﮞ ﮞ ﮞ ‘‘ ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ، ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﺍﻭ ﺭ ﺗﺮﻟﮯ ﮐﯿﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺎﮞ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﺎﺭِ ﻏﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﻭ ﺳﮑﻮﮞ ﺩﯾﺎ ’’ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ‘‘ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﺍﮨﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﺧﺴﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﮯ۔ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺒﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔ ﺁﻣﯿﻦ

منفی خیالات سے چھٹکارا پائیے؛ قیمتی راز جو زندگی بدل سکتے ہیں ایک سیانے کا قول ہے: ’’جب زندگی رونے پیٹنے کی سو وجوہ آپ کو دکھائے، تو اسے بتائیے کہ ہنسنے کی ایک ہزار وجوہ موجود ہیں۔‘‘ یہ خوبصورت قول ہمارے سامنے زندگی کا مثبت رخ پیش کرتا اور اُمید دلاتا ہے۔ زندگی ٹھوکریں کھا کر گرنے اور پھر سنبھلنے کا نام ہے۔ جو لوگ اپنی غلطیوں سے سبق لیتے ہیں، کامیابی عموماً انہی کے قدم چومتی ہے۔ مزید براں ایک تجربہ کار اور دانا استاد کی رہنمائی بھی نو آموز کے لیے فائدے مند ثابت ہوتی ہے۔ اکیاسی سالہ پرمود بترا ایک ایسے ہی استاد ہیں۔ پرمود بترا 1936ء میں سرگودھا میں پیدا ہوئے۔جب ہندوستان تقسیم ہوا، تو مع والدین بھارت چلے گئے۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم بی اے اور مینیسوٹا یونیورسٹی (امریکا) سے ڈی لٹ کیا۔ وہ پھر 1996ء تک ایک نامور کمپنی میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے۔ریٹائر ہونے کے بعد وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے بلکہ فیصلہ کیا کہ زندگی کے اپنے تلخ و شیریں تجربات سے فائدہ اٹھا کر دوسروں کی رہنمائی کریں گے۔ اس ضمن میں انہوں نے قلم کا سہارا لیا اور کردار سازی و تعمیر شخصیت سے متعلق کتابیں لکھ کرمایوس، ناکام اور نامراد لوگوں کو کامیابی و ترقی کا راستہ دکھانے لگے۔ بترا صاحب بھارت کے علاوہ بیرون ممالک بھی لیکچر دیتے اور مردو زن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ، عزم اور ہمت ابھارتے ہیں۔ ان کی کتابوں سے امید افزا اور زندگی بدل دینے والے مثبت واقعات و اقوال درج ذیل ہیں۔ سوچ محدود نہ کیجیے ایک مرغی کافی دیر تک شیشے کی دیوار کی دوسری سمت پڑے دانوں کو تاسف بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ کبھی کبھی بے مقصد زمین پر ٹھونگ مار دیتی۔ مگر احمق مرغی اپنی محدود سوچ کے دائرے میں مقید رہی۔ اگر وہ محض ایک فٹ دیوار کے ساتھ ساتھ چلتی، تو وہ ختم ہوجاتی۔ تب مرغی دانوں تک پہنچ سکتی تھی۔اس واقعے کا سبق یہ ہے کہ انسان کبھی اپنی سوچ محدود نہ کرے۔ یوں اس کے خیالات بند گلی میں قید ہوجاتے ہیں۔ فکر کو وسعت دے کر ہی انسان اپنے مقاصد پاسکتا ہے۔ گاہک کی پسند ایک کمپنی جانوروں کی خوراک بناتی تھی۔ ایک دن نئی مصنوعات کے سلسلے میں میٹنگ ہوئی جس میں کمپنی کے تمام اعلیٰ افسر شریک تھے۔ ہر افسر مشورے و تجاویز دے رہا تھا۔ اچانک مالک کمپنی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے کمرے میں کھڑے چپڑاسی سے پوچھا ’’تم بتاؤ جانور کیسی خوراک پسند کرتے ہیں؟‘‘ چپڑاسی مسکرا کر بولا ’’جناب! میں کتا بلی تو نہیں کی اپنی پسند بتا سکوں۔ ایسا کیجیے کہ چند جانور حاصل کریں اور پھر ان کے سامنے اپنی مصنوعات رکھیے۔ معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیسی خوراک پسند کرتے ہیں۔‘‘ مالک کمپنی کو یہ مشورہ بہت پسند آیا اور وہ کارگر بھی ثابت ہوا۔یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ گاہکوں کی ضروریات اور پسند مدنظر رکھ کر ہی ہر کمپنی اپنی مصنوعات تیار کرے۔ تبھی اس کی ایک نئی مصنوعہ کامیاب ہوسکتی ہے۔ کمپنی کے مالکان نے اپنی پسند ناپسند سامنے رکھ کر کوئی مصنوعہ تیار کی، تو اس کا کامیاب ہونا محال ہے۔ اب کیا کروں؟ ایک بوڑھا چینی اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں جارہا تھا۔ اس نے کاندھے پر ایک لکڑی جما رکھی تھی جس سے یخنی سے بھرا ایک برتن لٹک رہا تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ چلتے چلتے کسان کو ٹھوکر لگی، تو برتن نیچے گرا اور ٹوٹ گیا۔ کسان نے لحظہ بھر رک کر اسے دیکھا پھر اپنے قدم اٹھاتا آگے چل پڑا۔اتفاق سے وہاں کھڑا ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا کسان کے پاس گیا اور پوچھا ’’بزرگو! آپ کا برتن ٹوٹ گیا اور ساری یخنی ضائع ہوگئی۔ آپ کو افسوس نہیں ہوا؟‘‘ بوڑھے کسان نے سکون سے کہا ’’ہاں، بیٹا، میں جانتا ہوں۔ مگر اب میں کیا کروں؟‘‘ وہ آدمی یہ سن اپنا سر ہلا کر رہ گیا۔یہ واقعہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ جو نقصان ہوچکا، اس پر رونے کڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ غم و افسوس کرنے سے الٹا صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھیے اور کوشش کیجیے کہ وہ مستقبل میں ظہور پذیر نہ ہوں۔ غلطیاں ہر انسان سے سرزد ہوتی ہیں، مگر جو لوگ ان پر ماتم کرنے لگیں، وہ اپنا وقت اور توانائی ہی ضائع کرتے ہیں۔ دماغ سلامت رکھیے ایک دفعہ میں جاپان دورے پر گیا۔ وہاں میری ملاقات دونوں ٹانگوں سے معذور ایک امریکی سے ہوئی۔ معذوری کے باوجود وہ وہیل چیئر پر بیٹھا دنیا کی سیر کرنے نکلا ہوا تھا۔ اس کی بہادری اور عزم نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے اس معذور سے پوچھا ’’وہ کون سی بات ہے جس نے آپ کو بہادر اور دلیر بنادیا؟‘‘ معذور مسکرایا اور بولا ’’دوست! میں ٹانگوں سے معذور ہوں، مگر میرا دماغ تو سلامت ہے۔‘‘ سچ یہ ہے کہ جو انسان اپنے دماغ سے کام لے، وہ معذور ہوتیم ہوئے بھی کارہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے۔ صرف مشین ہی ناکارہ نہیں ہوتی، دماغ کو بھی خراب ہونے سے بچانا چاہیے۔ تیرنے کی بنیادی شرط ایک ملاح دریا میں کشتی چلاتا تھا۔ وہ ایک کنارے سے مسافروں کو دوسرے کنارے تک لے جاتا اور اپنی فیس کھری کرتا۔ کسی نے اس سے پوچھا: ’’تم دن میں کتنے چکر لگالیتے ہو؟‘‘ وہ بولا ’’جتنے زیادہ سے زیادہ لگ جائیں۔ کیونکہ میں جتنے چکر لگاؤں گا، اتنی ہی زیادہ رقم مجھے حاصل ہوگی۔ اگر میں بیٹھا رہا، تو کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘یہ معمولی ملاح ہمیں زندگی کا ایک بڑا سبق دیتا ہے، یہ کہ اپنی خوشحالی و ترقی کے لیے محنت کرنا بنیادی شرط ہے۔ انسان کو کم از کم اتنی تگ و دو ضرور کرنی چاہیے کہ اپنا وزن خود سنبھال لے اور اس زمین پر بوجھ نہ بنے۔ ہنرمندی: ایک قیمتی شے ایک امریکی اپنی کار میںدنیا کی سیر کرنے نکلا۔ وہ پھرتا پھراتا افغانستان آپہنچا۔ ایک جگہ اس کی گاڑی کا انجن بند ہوگیا۔ بہت تگ و دو کی مگر کار اسٹارٹ نہ ہوسکی۔ اس علاقے میں آبادی کم تھی۔ امریکی پریشان ہوگیا کہ اب وہ کار مکینک کہاں سے ڈھونڈے۔ امریکی سیاح کی خوش قسمتی کہ علاقے میں ایک مکینک مقیم تھا۔ وہ اس تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ مستری نے انجن دیکھا بھالا، پھر ہتھوڑا اٹھایا اور سلنڈر پر پانچ ضربیں لگائیں۔ پھر چابی گھمائی، تو کار چل پڑی۔ امریکی بہت خوش ہوا۔اس نے افغان مکینک کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ کتنے پیسے ہوئے؟ افغان بولا ’’آپ ایک سو ڈالر دے دیں۔‘‘ امریکی نے حیران ہوکر کہا ’’بھائی‘ کام تو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ تم نے جھٹ پٹ کر ڈالا۔‘‘ مکینک بولا ’’محترم! ضربیں لگانے کے تو صرف 5 ڈالر ہیں۔ خرابی ڈھونڈنے میں جو مہارت خرچ ہوئی، 95 ڈالر اس کے ہیں۔‘‘ امریکی خاموش ہوگیا اور چپ چاپ سو ڈالر دے دیئے۔ یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ ہنرمندی ایک قیمتی شے ہے۔ لہٰذا ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہنرمندوں کی موجودگی ہی ہمارے بہت سے مسائل حل کرنے میں مددگار بنتی ہے۔ عقل کو آکسیجن دیجیے ایک بار بادشاہ نبی حضرت سلیمانؑ نے ایک کمرے میں ایسے اصلی اور نقلی پھول رکھ دیئے جن میں بظاہر کوئی فرق نہ تھا۔ پھر اپنے وزیروں مشیروں کو بلایا اور پوچھا کہ ہاتھ لگائے بغیر بتاؤ، ان میں اصلی پھول کون سے ہیں اور نقلی کون سے؟ وزیر مشیر سر کھجا کر تُکے لڑاتے رہے مگر کوئی بھی سارے اصلی پھولوں کو ایک جگہ جمع نہیں کرسکا۔ انہیں ناکام دیکھ کرحضرت سلیمانؑ نے کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ سامنے ہی وسیع و عریض باغ تھا۔ تھوڑی دیر بعد چند شہد کی مکھیاں کمرے میں داخل ہوئیں اور اصلی پھولوں پر منڈلانے لگیں۔ یوں حضرت سلیمانؑ نے اپنی دانش مندی سے مسئلہ حل کرلیا۔ یہ مثال یہی سبق دیتی ہے کہ ہم کو اپنا دماغ ہر وقت کھلا رکھنا چاہیے تاکہ عقل کو آکسیجن ملتی رہے۔ ایک عاقل و فہمیدہ انسان کٹھن ترین مسائل کا بھی بخوبی حل نکال لیتا ہے۔ خوبیوں پہ نظر اٹلی کے عالمی شہرت یافتہ مجسمہ ساز، مائیکل انجیلو کا مجسمہ ’’ڈیوڈ‘‘دنیائے فنون لطیفہ میں کلاسک مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ انجیلو نے سنگ مر مر کے جس تختے سے یہ مجسمہ تخلیق کیا، اسے دوسرے مجسمہ ساز ناقص قرار دے کر مسترد کرچکے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس ٹکرے سے کچھ نہیں بنایا جاسکتا۔تاہم مائیکل انجیلو نے سنگ مر مر کا وہ تختہ دیکھا، تو اسے اس میں پوشیدہ ڈیوڈ کا مجسمہ نظر آگیا۔ چناں چہ اس نے تختے کے نقائص نظر انداز کیے اور چھینی و ہتھوڑی اٹھا کر مجسمہ تخلیق کرنے لگا۔ آج یہ مجسمہ فنون لطیفہ کی دنیا میں ’’ماسٹر پیس‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ عام لوگ زندہ یا مردہ اشیا کے عیوب و خامیوں پر تو دھیان دیتے ہیں لیکن ان میں چھپی خوبیاں نظرانداز کردی جاتی ہیں۔ لیکن دانا بینا لوگ خوبیاں ہی دیکھتے اور ناسازگار حالات کے باوجود ان سے فائدہ اٹھا کر کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔ رہنما اقوال ٭… ہلکی سیاہی سے لکھی تحریر بھی بہترین یادداشت سے بہتر ہوتی ہے۔ ٭… ایک انسان کے بے عیب ہونے کی بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرتا۔ ٭… چھوٹی چھوٹی خامیوں پر بھی نظر رکھیے کیونکہ ایک معمولی سا سوراخ بھی جہاز ڈبو سکتا ہے۔ ٭… دس غریب ایک کمبل میں سو جائیں گے مگر ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سماسکتے۔ ٭… ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ جو بیک وقت کئی کام کرنا چاہتے ہیں وہ کوئی بھی کام مکمل نہیں کرپاتے۔ ٭… جو انسان ایک اسکول کھولے، وہ ایک قید خانہ بند کردیتا ہے۔ ٭… بڑی کامیابی اس انسان کو ملتی ہے جو چھوٹے آغاز پر مطمئن رہنا سیکھ لے۔ ٭… جن لوگوں کی آنکھیں کھلی اور دماغ بند نہ ہوں، ان کے لیے غلطیاں کامیابی کی کنجی ہیں۔ ایڈیسن نے کئی غلطیاں کیں پھر ان سے سبق سیکھ کر ہی وہ بلب بنا پایا۔ ٭… وہ آدمی امیر ترین ہے جس کی خوشیاں سستی ہوں۔ ٭… تعریف انسان کی عمدہ خوراک ہے۔ ٭… رات کو اچھا آرام کرنے کے معنی ہیں کہ صبح کو اچھا آغاز۔ ٭… صرف مردے اور بے وقوف ہی اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے۔ ٭… خوشی کا راز تجسّس میں پوشیدہ ہے۔ ٭… محنت میں مواقع چھپے ہونے کی وجہ سے کئی لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ ٭… شکست کتنی ہی تلخ ہو، عارضی ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی کرکے آئندہ اسے جیت میں بدل لیجیے۔ ٭… دوستوں اور کتابوں سے رابطے میں رہیے۔ ٭… دریا کے نقش قدم پر چلیے، وہ آپ کو سمندر تک پہنچا دے گا۔ ٭… مسکراہٹ واحد ایسی عالمی زبان ہے جسے دنیا کا ہر شخص سمجھتا ہے۔ ٭… کامیاب و کامران انسان وہ ہے جو دوسروں کی نہیں اپنی خامیوں و غلطیوں پر نظر رکھے۔ ٭…ایک ملی گرام احتیاط اذیت و تکلیف کے منوں بوجھ سے محفوظ رکھتی ہے۔ ٭…چھوٹے دشمن کو بڑا دشمن نہ بنائیے۔ ٭…بچے والدین کا سہارا بنتے ہیں یا نہیں، اس امر کا دارومدار 70 فیصد ماں باپ پر ہے اور 30 فیصد قسمت پر۔ ٭… مالک اپنے ملازمین سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے کیونکہ عقل و دانش صرف مالکوں کی میراث نہیں۔ ٭…لوگ آپ کے خلاف نہیں، وہ بس اپنے مفاد میں سوچتے ہیں۔ ٭…جاہل کہتا ہے کہ اس نے اپنا ماضی اور حال تباہ کردیا۔ عقل مندکہتا ہے کہ ابھی مستقبل سلامت ہے۔ ٭…ناکامیوں کو ریت پر جبکہ کامیابیوں کو سنگ مر مر پر تحریر کیجیے۔ ٭…عزت و احترام کے بغیر کامیابی پانا ایسے ہی ہے جسے نمک کے بغیر کھانا۔ یہ کھانا بھوک تو ختم کردیتا ہے مگر بذذائقہ ہوتا ہے۔ ٭… وہ انسان خوش قسمت ہے جسے من پسند کام کرنے کو مل گیا… اب اسے کسی اور خوشی کی ضرورت نہیں۔

✴️ یقین سے متعلق ایک انتہائی پرتاثیر تحریر ✴️ {...میں نے اپنے اللہ سے کہہ دیا ہے...!} گلی میں کھیلنے والے بچوں کو وہ بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا… اس نے دیکھا کہ ایک بچے نے دوسرے بچے کو مارا تو مار کھانے والا روتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگالیکن تھوڑی ہی دیر میں پھر آموجود ہوا… اب اس کے چہرے پر حد درجہ اطمینان تھا… جس بچے سے اس کی لڑائی ہوئی تھی، اس کو اس نے کہا… . " میں نے اپنی ماما سے کہہ دیا ہے " . اور یہ کہہ کر وہ دوبارہ کھیل میں شامل ہو گیا… وہ سوچنے لگا کہ اس بچے کو حد درجہ اطمینان کس چیز نے دیا ہے… اس کی ‘ماما’ نہ تو موقع پرآئی ہے، نہ اس نے دوسرے بچے کو کچھ کہا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی پیغام بھیجا ہے مگر اس کا بیٹا پھر بھی مطمئن ہے… غور و فکر سے اس پر واضح ہوا کہ اس کا اطمینان در اصل اس یقین کا نتیجہ تھا جو اس کو اپنی ماں پر تھا…اسے یقین تھا کہ اس کی ماں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس کی بے عزتی کا بدلہ لے سکے اور یہ کہ وہ لازماً ایسا کرے گی… مگر یہ کہ وہ کب ایسا کرے گی، کس طریقے سے کرے گی، کتنا کرے گی، یہ سب کچھ اس نے اپنی ماں پر چھوڑ دیا تھا… اور یہ بھی اس کا یقین تھا کہ وہ یقیناً بہتر ہی کرے گی…! تفویض اور اپنے معاملات کو ایک مشفق اور طاقتور ہستی کے سپرد کرنے کا یہ عمل اسے بہت بھایا اور ساتھ ہی وہ بہت شرمندہ بھی ہوا جب اسے یہ احساس ہوا کہ اس کا تو اپنے مالک سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا کہ اس بچے کا اپنی ماں سے ہے… اس نے یاد کیا کہ اس کی زندگی میں کتنے مواقع ایسے ہیں کہ جب اس نے سجدے میں سر رکھ کر یہ کہا ہو کہ مالک میرے بس میں جو تھا وہ تو میں نے کر لیا اب معاملہ تیرے سپرد ہے… اور یہ کہہ کر وہ اس بچے کی طرح مطمئن ہو گیا ہو… اور جب تہی دامنی کی احساس نے اسے بالکل ہی سرنگوں کر دیا تو اس نے حساب لگایا کہ اصل میں گڑ بڑ دو جگہ پر ہے… اول تو اسے مالک کی طاقت، قدرت اور عظمت کا کامل استحضار ہی نہیں اور اگر ہے تو پھر اس کی حکمت پہ شاید کامل ایمان نہیں… وگرنہ یہ ممکن نہ تھا کہ تفویض کے بعد اسے اطمینان حاصل نہ ہو جاتا اور پھر اس نے ”افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد“ کہہ کر یہ عہد کیا کہ آئندہ وہ تفویض کا یہ عمل بچوں سے سیکھے گا اور ہر اہم موقع پر یہ کہہ کر اپنے ایمان کی تربیت کرے گا کہ میں نے اپنے اللہ سے کہہ دیا ہے…!!

حیات زوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

جِس طرف بھی نگاہ اُٹھتی ہے ••- ایک ہی عکس رُوبرو ٹھہرا ••- 😋

سر آستانہ یار سے جس نے اُٹھایا لیا ! رسوا ہوا , خراب ہوا , دربدر ہوا .برباد ہوا۔۔۔ !

ﻣﮑﺘﺐ ﻋﺸﻖ ﺳﮯ ہر ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﻧﮩﯿﮟ، ﺻﺎﺣﺐ •- ﭘﺎ ﻟﯿﻨﺎ ﮬﯽ ﻋﺸﻖ ﻧﮩﯿﮟ "ﻓﻨﺎ" ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻋﺸﻖ ﮨﮯ •- 🚬

میری خواہش ہے میری شاعری تم سمجھو یہ آرزو نہیں کہ لوگ واہ واہ کریں •` 👮

پروں سے باندھ کے پتھر مجھے اڑاتا ہے۰۰۰۰۰ عجیب شخص ہے پھر تالیاں بجاتا ہے۰۰۰۰

اب ملاقات میں وہ گرمئ جذبات کہاں... اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں.

اِسی لئے تو آنکھوں کی جلن نہیں جاتی بے قدروں کو جو آنکھوں میں بسا رکھا ھے 😒